’مجھے اغواکرنے والے جنگجو موٹر سائیکل پر بٹھا کے لے گئے۔ ہمیں غزہ میں زیر زمین ایک سرنگ میں رکھا گیا جہاں ہم زمین پر بچھائے گئے گدوں پر سوتے تھے۔ وہاں گارڈز اور طبی عملہ موجود ہوتا تھا جبکہ ایک ڈاکٹر بھی ہر دوسرے، تیسرے دن یرغمالیوں کے چیک اپ کے لیے آتا تھا۔‘
85 سالہ يوشويد لیفشتس ان دو خواتین یرغمالیوں میں شامل ہیں جنھیں گذشتہ روز حماس کی جانب سے رہا کیا گیا ہے۔ حماس کی قید کے دوران اُن پر کیا بیتی، عمر رسیدہ يوشويد اس کی تفصیل اپنی بیٹی کے ہمراہ تل ابیب میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں بتا رہی تھیں۔
’مجھے میرے گھر سے (سات اکتوبر کو) حماس کے بندوق بردار جنگجوؤں نے اغوا کیا اور موٹر سائیکل پر بٹھا کر غزہ لے گئے۔ اس سفر میں مجھے کئی جگہ چوٹیں بھی آئیں اور مجھ سے سانس بھی مشکل سے لیا جا رہا تھا۔‘
Compare how Hamas treats Israeli prisoners to how Israel treats Palestinian hostages.
Look how the old lady turns around to say goodbye, while Israel denies a Palestinian woman treatment for severe burns.
Never believe Israeli propaganda. pic.twitter.com/XOGOWpXWY0
— Syrian Girl 🇸🇾🎗 (@Partisangirl) October 24, 2023
حماس سے گذشتہ رات رہائی پانے کے بعد سے يوشويد تل ابیب کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور انھوں نے ہسپتال سے ہی پریس کانفرنس میں اپنی قید کے دنوں کی روداد سنائی۔ اس پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی موجود رہیں جو اپنی والدہ کی باتوں کا ترجمہ کر رہی تھیں۔
يوشويد نے مزید بتایا کہ ’ہمیں سرنگوں میں رکھا گیا جہاں ہمیں کھانے کے لیے سفید پنیراور ککڑی دی گئی۔ اوریہ وہی کھانا تھا جو ہمیں اغوا کرنے والے جنگجو بھی کھاتے تھے۔‘
واضح رہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیلی شہروں پر حملے کے نتیجے میں جہاں 1400 کے لگ بھگ اسرائیلی ہلاک ہوئے وہیں اسرائیلی فوج کے مطابق جنگجو 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے تھے۔
حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 5800 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی بھی ہے۔
يوشويد نے پریس کانفرس میں حماس کی قید کے دنوں سے متعلق جنگجوؤں کے رویے سے متعلق بھی تفصیل سے بتایا۔
ان کے مطابق جن 24 دیگر لوگوں کے ساتھ انھیں سرنگوں میں لے جایا گیا وہاں کا فرش نرم اور گیلا تھا۔
’وہاں پہنچنے پر جب موٹر سائیکل سے اُتارا گیا تو ہمارا استقبال کرنے والوں نے کہا ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے آپ لوگوں کو یہاں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘
’ان لوگوں نے قید کے دوران ہر باریکی کا خیال رکھا یہاں تک کے خواتین کی نسوانی صحت سے متعلق باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا گیا تھا۔‘
’دو یا تین گھنٹے کے بعد انھوں نے اغوا کیے گئے پانچ افراد کو ایک علیحدہ کمرے میں رکھا۔‘
’مکڑی کے جالے‘ جیسا زیر زمین سرنگوں کا بڑا نیٹ ورک
يوشويد نے حماس کے زیر انتظام زیر زمین سرنگوں کے ایک ’بڑے نیٹ ورک‘ کی وضاحت اسے مکڑی کے جالے سے تشبیہ دے کر کی۔
ہسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران عمر رسیدہ یوشيفيد کی بیٹی شیرون والدہ کے ساتھ رہیں اور انھوں نے تمام گفتگو کا ترجمہ کیا۔
اسی دوران ان کا کہنا تھا کہ جب والدہ کو یرغمال بنایا گیا تو غزہ لے جانے کے دوران اغوا کاروں نے ان کی گھڑی اور زیورات اتار دیے۔
شیرون کے مطابق ’والدہ کے جسم پر زخم دراصل چھڑی سے مارنے کے نشانات ہیں تاہم والدہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر یرغمالیوں کو انھوں نے بہت خیال کے ساتھ رکھا۔‘
شیرون نے مزید کہا کہ اغوا کار ان کی عمر رسیدہ والدہ کو گیلی زمین پر بھی چند کلومیٹر پیدل چلاتے ہوئے لے گئے۔
يوشويد کو تو سوموار کے روز حماس کے جنگجوؤں سے رہائی مل گئی لیکن اُن کے شوہر ابھی تک حماس کے پاس قید ہیں۔
يوشويد نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران اسرائیل پر بھی تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ ’(اسرائیلی) حکومت نے سرحدی باڑ پر اربوں روپے خرچ کیے لیکن پھر بھی حماس کو پیش رفت سے روک نہ سکے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں جہنم سے گزر کر آئی ہوں۔‘