اردو خبر خاص

فلسطینیوں پر نصرتِ خداوندی سے محرومی کا الزام، راہبانہ اور نسل پرستانہ سوچ!

فلسطینیوں پر نصرتِ خداوندی سے محرومی کا الزام، راہبانہ اور نسل پرستانہ سوچ!
✍: سمیع اللہ خان
فلسطینی مسلمان عبادتوں اور اعمال میں کمی کی وجہ سے نصرتِ خداوندی سے محروم ہیں یہ سوچ راہبانہ اور نسل پرستانہ ہے، جی ہاں بالکل، اس ذہنیت کی اصولی تعبیر یہی ہوگی، راہبانہ اور نسل پرستانہ!
فلسطینی اسلام کے قبلہءاول مسجدِ اقصٰی اور سرزمینِ انبیاء کا دفاع کس بہادری، جوانمردی اور ایمانی شجاعت سے کررہے ہیں فی الحال یہ اصل ہے، وہ بھوکے پیاسے جانیں قربان کرتے ہوئے قدس کے قرآنی نظریے سے سمجھوتہ نہیں کررہے ہیں یہ ان کے کردار کی ایسی روشنی ہے جو ہزار عابدوں کی عبادتوں سے افضل ہے،
شرم کی بات یہ ہےکہ فلسطینی مسلمان جوکہ 75 سالوں سے آسمان تلے اذیّت ناک کھلی جیل جیسی فضا میں گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں اور جن کی مدد کرنے سے نام۔نہاد مسلم دنیا اپاہج ہے اُن فلسطینیوں پر اعمال و عبادات کے طعنے مارنا انتہائی ظالمانہ سوچ ہے، افسوس کی بات ہے کہ ایسی سوچ کا مظاہرہ وہ مولوی حضرات کررہے ہیں جن سے اگر یہ پوچھا جائے کہ بھارت میں غزہ جیسا ظالمانہ حصار نہ ہونے کےباوجود تم لوگ مودی یوگی اور آر ایس ایس کے استبدادی بت کےخلاف کیوں نہیں باہر نکلتے تو وہ بغلیں جھانکنے لگیں گے، کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ان کا کیا کردار ہے اگر یہ پوچھ لیا جائے تو ان کے منہ میں دہی جم جائےگا اور بھارت میں ان کے اپنے افعال و اعمال کا کیا حال ہے اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو سوائے اکاؤنٹس کی حفاظت کے اور کچھ شاید ہی نظر آئےگا ۔
جو لوگ سعودیہ اور دبئی سے بوری بھر بھر کے مال و دولت لا کر بھارت میں اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور اپنے بچوں کا مستقبل مالدار بناتے ہیں اُنہیں فلسطین اور مسجد اقصٰی میں دینداری کی کمی کا شکوہ ہے اور وہ اس قدر جری ہوجاتے ہیں کہ مسجدِ اقصٰی کے لیے نصرتِ خداوندی میں تاخیر کے لیے مظلوم فلسطینیوں پر الزام عائد کردیتے ہیں،
وہ لوگ ظاہری دینداری اور ظاہری دنیاداری کو اپنے تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں، گناہ کے کاموں اور عادات کی خرابیوں پر ان کی توجہ ہوتی ہے، اور عیب جوئی کرنے والی عورتوں کی طرح یہ کہتے پھرتے ہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کی فلاں فلاں عادتیں خراب ہیں، ایسے عناصر کی گوشمالی اہلِ حق کے خیمے کے ہر فرد پر فرض ہے۔
کاش کہ ایسے بھارتی مولوی حضرات زبانِ فتوٰی کی واقفیت کے ساتھ ساتھ علمِ نفسیات کی باریکیوں سے بھی آشنا ہوتے، عہدِ زوال و محکومیت میں قوموں کی عادتیں کیسے بگڑتی ہیں یہ اگر انہیں معلوم ہوجائے تو ایسی ” محلّہ واری اصلاح ” کی باتوں کو موضوعِ طعنہ نہیں بناتے،
عادتوں میں بگاڑ کو مقصد کے انحراف سے تعبیر کرنا ہوائی جہاز سے بس فلسطین پہنچ جانے جیسا ہے جنگی حالات، مسلسل محاصرے اور حالتِ جنگ میں پیدا ہوکر پروان چڑھنے والی قوموں کے بارے میں انہیں کوئی تجربہ، مشاہدہ یا مطالعہ نہیں ہوتا ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف ایسی زبان درازی کرنے والوں کو پہلے پہل سعودیہ اور امارات کی لادینیت، فحاشیت اور عیش و عشرت پر کلام کرنا چاہیے، ان کے فکری انحراف پر لب کشائی کی جسارت کرنا چاہیے، جن عرب ممالک سے پیسہ لیتے ہیں ان کی فلسطینی کاز سے مجرمانہ غفلت اور غدّاری پر منہ کھولنا چاہیے، فلسطینیوں کو اس حالت میں پہنچانے کے لیے سعودی اور امارات کتنے ذمہ دار ہیں اس کا تجزیہ کرنا چاہیے،
اور کبھی ہوسکے تو بھارت میں مودی۔یوگی بھاگوت کےخلاف مہم چلانا چاہیے، جس سے معلوم ہو کہ فلسطینیوں پر خدا کی نصرت کے مانع ہونے کا انکشاف کرنے والا ازخود کتنا بہادر اور نصرتِ خداوندی کا مستحق ہے۔
فلسطینیوں کےخلاف بکواس کرنے والے عناصر سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے، محاذ پر برسرپیکار گروہ پر بوقت معرکہ اولًا تو بیرونی افراد کی طرف سے تنقید ہونا ہی نہیں چاہیے بس مدد کرنی چاہیے اگر ان میں کچھ کمیاں نظر آرہی ہوں تو محاذ میں شرکت کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے لیکن مجاہدین اور اہلِ جہاد کےخلاف کسی بھی طرح کی منفی ذہنیت پھیلانے والی کوشش کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی یہ نہایت گھٹیا حرکت ہی کہلائےگی _

 

ڈسکلیمر : تحریرمی دی گی جانکاریاں اور خیال وریتٹر کے نجی ہیں، تیسری جنگ اردو کا کوئی سروکار نہیں ہے