اردو خبر دنیا

گورنر جنرل غلام محمد کی قبر میں سانپ ،پاکستان سے #ثنااللہ_خان_احسن کی رپورٹ

Sanaullah Khan Ahsan
karachi, pakistan

=============
·
‎گورنر جنرل غلام محمد کی قبر میں سانپ
جناح کی وفات کے بعد دس سال تک پاکستان میں سازشوں اور
اقرباپروری کا جو بھیانک اور گندا کھیل کھیلا گیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
‎یعنی اندازہ کیجئے کہ ان دس سال میں سات وزیر اعظم آئے اور گئے۔
ایک عجیب افراتفری اور بندربانٹ کا کھیل جاری تھا۔
‎ غلام محمد جیسا عیاش طبع اور تماشبین گورنر جنرل بنادیا گیا. اس نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے محسن خواجہ ناظم الدین جنہوں نے اس کو گورنر جنرل لگوایا تھا کی چھٹی کرکے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی ہی تحلیل کرڈالی۔
خواجہ صاحب کی نیت بھی درست نہیں تھی۔ انہوں نے یہ سوچ کر انتخاب کیا تھا کہ یہ جلد مرجائے گا۔ جان چھوٹے گی۔لیکن گورنر جنرل بنتے ہی غلام محمد میں گویا نئ جان پڑ گئ۔
اکبر ملک نے اپنی کتاب ’کہانی ایک قوم کی‘ میں لکھا ہے کہ ’جب خواجہ ناظم الدین اور ان کے دیگر رفقائے کار نے غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے کا حلف دلایا تو اس وقت غلام محمد کی صحت جواب دے چکی تھی۔ وہ اکثر بیمار رہتے، فالج کے حملے نے انھیں چڑچڑا کر دیا تھا۔ ان کی گفتگو اور کردار میں مخبوط الحواسی کے آثار بھی نمایاں ہورہے تھے۔۔۔۔ وہ اپنا بیشتر وقت اپنی ایک غیر ملکی سیکرٹری مس روتھ بورل کے ساتھ گزارتے، اس کے باوجود ان کو اقتدار کی شدید بھوک اور پیاس تھی۔‘
غلام محمد: ’ماتحت افسروں کے منہ پر فائلیں مارنا یا کمرے سے نکال دینا، معمولی بات تھی‘
’اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ خود غرضی خود سری، ہٹ دھرمی، دھونس، دھاندلی اور ایچ پیچ کے سمیت ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں کام کیا تھا ان پر غلام محمد کے کردار کے یہ سب پہلو روز روشن کی طرح عیاں تھے۔ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی جب انھیں بستر علالت سے اٹھا کر گورنر جنرل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی کا ارتکاب تھا جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔‘
قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ اس نے ایک حکیم کل وقتی گورنر ھاؤس میں ملازم رکھا تھا جو اس کو معجونیں بنا بنا کر کھلاتا تھا۔ اس کے ارد گرد خوشامد پسندوں اور مفاد پرستوں کا ٹولہ رہتا تھا۔ بالآخر 1956 میں اس کی موت کے بعد یہ طوفان بدتمیزی کچھ تھما جس کے کچھ عرصہ بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کرکے پاکستان کا پہلا مارشل لا لگادیا۔

‎غلام محمد کی وفات کے بعد اس کو امانتا” کراچی کے فوجی قبرستان میں دفنایا گیا۔ 29اگست 1956 کو پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے ۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا لہٰذا انہیں امانتاًکراچی میں سپردِخاک کر دیا گیا۔ یہاں اس وصیت کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ شاید ان کا عقیدہ تھا کہ تمام زندگی گناہوں اور بداعمالیوں میں لتھڑے رہنے کے بعد سعودی عرب میں دفن ہونے سے ان کے گناہ معاف ہوجائیں گے لیکن ایسی وصیت کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ابولہب اور ابوجہل کی قبریں بھی مکۃ المکرمہ کے آس پاس ہی ہونگی۔ اور دیکھئے کہ وصیت بھی کام نہ آسکی۔ کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے لگے توایک ڈاکٹر، فوج کے کیپٹن، پولیس اہلکا ر، دوگورکن اور غلام محمد کے قریشی رشتہ دار قبرکشائی کے لیے قبر ستان پہنچے۔
گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی ،مگر وہ ہر وار سے بچ گیا ۔پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں،مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے سپرے کا چھڑکائوکر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبرکھودی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہاتھا ۔چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی: ’’سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جا ئی جاسکی اور وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی ۔ آج بھی اس کی قبر کراچی کے گورا قبرستان سے متصل فوجی قبرستان میں موجود ہے،
‎مجھے یقین ہے کہ جس جس نے پاکستان کو کھایا ہے تباہ کیا ہے ان کی قبروں میں بھی اسی طرح سانپ بچھو پھنکارتے ہونگے یا پھنکاریں گے
خواہ وہ فوجی قبرستان میں ہو یا کسی خود ساختہ شہید کی مقدس مزار نما گنبدوں کے اندر۔

ان شاءاللہ
حوالہ جات: جناب عقیل عباس جعفری کا BBC کے لئے لکھا گیا مضمون، و دیگر اخبارات و جرائد، شہاب نامہ،وغیرہ
#ثنااللہ_خان_احسن